To Read More Afsanay Like This
About Sebt.pk
Sebt.pk is the movement founded to make writers of Urdu literature realize the worth of their words. You can find anything here, you name it, Urdu Novel, Afsanah, Novelette and articles! If you want to publish your work and get it featured on sebt.pk you can contact us anytime!
2 thoughts on “Patang By Aliza husain”
اسلام وعلیکم !
ریویو : پتنگ
مصنفہ: علیزہ حسین
اس افسانے میں بنیادی طور پر مہاجرین کی مشکلات کا تذکرہ ہے۔ مہاجرین نے کس قدر خون بہا کر یہ ملک حاصل کیا ہے، کس قدر قربانیوں سے یہ وطن وجود میں آیا۔ افسوس ہے کہ آج کل کی نوجوان نسل ملک سے مایوسی اور نفرت میں انتہا پسند ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں ہمارے نوجوان جب تک تاریخ نہیں پڑھیں گے، تب تک انہیں اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کا احساس نہیں ہوگا۔ اس افسانے میں پارٹیشن کے وقت خون کی ندیاں بہنے کا بھی تذکرہ ہے، کس قدر ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہوئیں۔ کئی خاندان ریل گاڑی میں ہی وفات پاگئے اور کئی جب پاکستان پہنچے تو اپنےگھر والوں کو ریل گاڑی میں مردہ دیکھ کر پہنچے، نیز مہاجرین کی حسرتیں دکھائی گئیں ہیں کہ کیسے وہ اپنے گھر بار، رشتے چھوڑ کر یہاں ہجرت کر کے آئے، مگر ابھی بھی انہیں اپنے ملک لوٹ جانے کی خواہش رہتی ہے اور کچھ لوگ تو اسی خواہش کو دل میں بسائے، دنیا فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے ہسٹری میں کافی دلچسپی ہے اور جب میں نے یہ افسانہ پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ نہ صرف مجھے ہسٹری میں دلچسپی ہے بلکہ قیام پاکستان کے ابتدائی احوال کے متعلق مطالعے کا بھی ذوق ہے۔اس افسانے کو پڑھتے ہوئے میں نے اسے ایک ہی سٹنگ میں مکمل کرلیا تھا، کہانی کے تسلسل اور منظر نگاری کے لئے مصنفہ کا انداز بہترین ۔ انداز بیاں یوں تھا کہ ہر جملہ خود میں ایک تاثیر رکھتا تھا۔ کہتے ہیں اگر کسی کہانی کو یادگار بنانا ہے تو اس میں جذبات شامل کئے جائیں، یہ کام مصنفہ نے دادی کے کردار کے ذریعے بھرپور طریقے سے سر انجام دیا ہے۔
اللّٰہ مصنفہ کے قلم میں برکت عطا فرمائے اور ان کے الفاظ کی تاثیر کو برقرار رکھے
آمین۔۔۔
!اسلام وعلیکم
ریویو : پتنگ
مصنفہ: علیزہ حسین
اس افسانے میں بنیادی طور پر مہاجرین کی مشکلات کا تذکرہ ہے۔ مہاجرین نے کس قدر خون بہا کر یہ ملک حاصل کیا ہے، کس قدر قربانیوں سے یہ وطن وجود میں آیا۔ افسوس ہے کہ آج کل کی نوجوان نسل ملک سے مایوسی اور نفرت میں انتہا پسند ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں ہمارے نوجوان جب تک تاریخ نہیں پڑھیں گے، تب تک انہیں اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کا احساس نہیں ہوگا۔ اس افسانے میں پارٹیشن کے وقت خون کی ندیاں بہنے کا بھی تذکرہ ہے، کس قدر ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہوئیں۔ کئی خاندان ریل گاڑی میں ہی وفات پاگئے اور کئی جب پاکستان پہنچے تو اپنےگھر والوں کو ریل گاڑی میں مردہ دیکھ کر پہنچے، نیز مہاجرین کی حسرتیں دکھائی گئیں ہیں کہ کیسے وہ اپنے گھر بار، رشتے چھوڑ کر یہاں ہجرت کر کے آئے، مگر ابھی بھی انہیں اپنے ملک لوٹ جانے کی خواہش رہتی ہے اور کچھ لوگ تو اسی خواہش کو دل میں بسائے، دنیا فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے ہسٹری میں کافی دلچسپی ہے اور جب میں نے یہ افسانہ پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ نہ صرف مجھے ہسٹری میں دلچسپی ہے بلکہ قیام پاکستان کے ابتدائی احوال کے متعلق مطالعے کا بھی ذوق ہے۔اس افسانے کو پڑھتے ہوئے میں نے اسے ایک ہی سٹنگ میں مکمل کرلیا تھا، کہانی کے تسلسل اور منظر نگاری کے لئے مصنفہ کا انداز بہترین ۔ انداز بیاں یوں تھا کہ ہر جملہ خود میں ایک تاثیر رکھتا تھا۔ کہتے ہیں اگر کسی کہانی کو یادگار بنانا ہے تو اس میں جذبات شامل کئے جائیں، یہ کام مصنفہ نے دادی کے کردار کے ذریعے بھرپور طریقے سے سر انجام دیا ہے۔
اللّٰہ مصنفہ کے قلم میں برکت عطا فرمائے اور ان کے الفاظ کی تاثیر کو برقرار رکھے
آمین۔۔۔