Alam by Hira Akbar

Synopsis:

وہ آنے والا ہے!

جس پر فدا ہوں گی نوجوان عورتیں،

بوڑھی اور لاغر عورتیں بھی۔

جس کے ایک ہاتھ میں جہنم ہوگی،

تو دوسرے ہاتھ میں جنت۔ وہ بہکا دے گا۔۔۔

،ہر اس انسان کو

،جسے یقین ہوگا نا ایمان

 !اس ایک خدا پر

،جو تمہارا بھی رب ہے

اور میرا بھی۔۔۔

،جو مشرق کا مالک بھی ہے

اور مغرب کا بھی۔۔۔

دعا مانگو کہ اس وقت سے پہلے تم مرجاؤ!

ورنہ تسبیح کرو صرف اس بات کی کہ

تمہارا ایمان ہو یوسف سا یا عیسیٰ سا

تاکہ تم نجات پاسکو

اس فتنہ کے شر سے

Review:

الم از حرا اکبر تعارف – یہ تحریر پڑھنے کے دوران میں مسلسل خوشگوار حیرت اور متاثر ہونے جیسے احساسات سے گذرتا رہا۔ حرا اکبر کو پڑھنے کا یہ دوسرا تجربہ رہا اور دونون ایک سے بڑھ کر تھے۔ مٹی کو میں نے کتنا پسند کیا ۔آپ سب کو معلوم ہے۔ الم کو بھی میں نے اتنا ہی پسند کیا۔ میرے پاس اب ویسے الفاظ ہی نہیں رہے کہ میں ان مصنفہ کی تعریف کروں۔ اور وہی الفاظ دھراتے ہوئے ، مجھے وہ الفاظ باسی اور ماند لگ رہے ہیں۔ پلاٹ: الم میں مٹی کی سایہ کافی جگہ نظرآیا لیکن یہ مشابہت محض لکھائی تک محدود تھی۔ کہانی مکمل طور پہ مختلف تھی۔ قاسم کو آپ الم نہیں کہہ سکتے۔ مسکان کو آپ امل نہیں کہہ سکتے۔ اور قاسم کے ابا کو آپ شیخ سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔ ان کے کردار یکسر مختلف تھے۔ بلکہ آپس میں ضد تھے۔ سمندر سے شروع ہوتی یہ کہانی ایک ترتیب سے ، مرکزی کردار یعنی الم کے احاساسات کو بیان کرتے ہوئے موضوع کو اپنے ساتھ لے کر اس کے پرتیں کھولتے اختتام کو جا پہنچی ۔ جس میں سب سے زیادہ کمال کہانی کی بنت اور اس کے انداز بیان کا تھا۔ موضوع : کہانی قرب قیامت میں میں ایک شخص کو نظر آنے والی نشانیوں کے گرد گھومتی ہے۔ وہ نشانیاں جو کوئی اور نہیں دیکھ سکتا بلکہ وہ ایک شخص ہی دیکھتا ہے۔ ان نشانیوں میں کئی بڑی نشانیاں ذکر ہیں۔ جیسے قرآن کے الفاظ کا اوپر کی جاب اٹھ جانا۔ اور دجال کا ظہور۔ یہ سب اس تحریر میں منظر نگاری کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔اور کیا خوب بیان کیا گیا ہے۔ کردار: الم اور اس کی امل۔ یہ کہانی انہی دو کرداورں پہ مشتمل تھی۔ الم وہ کہ جس کو طلسماتی طور پہ تتلیاں نظر آتی ہیں۔ اور ان کے نظر آنے کے فورا بعد وہ مستقبل دیکھتا ہے۔ اور مستقبل میں قیامت کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ امل جو کہ الم کا ساتھ چاہتی ہے۔ اس کو سمجھتی ہے۔ اس کا ساتھ دے کر اس کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایک سہارہ بننا چاہتی ہے۔ وہ ان دونوں کے رشتے کی درمیان کی تردد کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ لکھائی: سارے نمبر لکھائی کے ہیں۔ کہانی کا تصور تو انتہا درجے کا زبردست تھا۔ لیکن اس تصور کو اپنے قلم سے جس انداز سے مصنفہ نے ثبت کیا ہے، کوئی اور شاید ہی کرپاتا۔ یہ کہانی صرف حرا ہی لکھ سکتی تھیں میرے خیال سے۔ ان کے لکھے پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑے جرت کی ضرورت پر رہی ہے مجھے۔ ان کا لکھا ہم نئے لکھاریوں میں ممتاز ہے۔ الفاظ کا چناؤ، جملوں کی بناوٹ، تشبیہات، منظر نگاری، پختگی اپنے عروج پر۔ آپ سچ میں ایک لکھاری ہیں، حرا اکبر۔ آپ کے قلم میں اللہ تعالی نے تاثیر رکھی ہے۔ آپ لکھتی رہیں، اور اس نعمت کا بے حد شکر ادا کرتی رہیں۔ اللہ آپ سے اپنے دین کا کام لے۔آمین۔ آخری الفاظ: اگر مٹی پڑھ لیا ہے تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، آپ لکھاری کی صلاحیت سے واقف ہیں۔ یہ کہانی بھی مٹی کی طرح کی بے حد بہترین تحریر ہے۔ اگر مٹی نہیں بھی پڑھی تو میری بات مان کر ایک مرتبہ پڑھ لیں، مجھے یقین ہے آپ میرے پاس آکر میرا شکریہ ادا کریں گے۔ یہ تحریر ثبت کی ویب سائٹ پہ موجود ہے۔ -تبصرہ از تاج محمود

Picture of <a href="https://sebt.pk/writer/hira-akbar/" rel="tag">Hira Akbar</a>

Hira, the author of the afsanah "Mitti," crafts captivating stories that delve into the beauty of everyday life and the human spirit.

Social Icons

To Read More Afsanay Like This

Author
Picture of <a href="https://sebt.pk/writer/hira-akbar/" rel="tag">Hira Akbar</a>

Hira, the author of the afsanah "Mitti," crafts captivating stories that delve into the beauty of everyday life and the human spirit.

Social Icons

1 thought on “Alam by Hira Akbar”

  1. (5/5)

    جب میں نے یہ افسانہ پڑھا تو مجھے یہ لکھنے کا انداز کچھ جانا پہچانا لگا- جب مُصنفہ کا نام دیکھا تو ذہن میں پہلا لفظ جو آیا وہ تھا مٹی- جی ہاں حرا اکبر کی یہ تحریر بھی مٹی کی ہی طرز پر لکھی گئ زبردست تحریر ہے- حرا اکبر اپنے انوکھے انداز سے عام کردار کو بھی خاص بنادیتی ہیں- اس تحریر کو پڑھتے ہوئے آپ اتنے محوہوجائیں گے کہ ایک،دو مرتبہ پڑھنے کے بعد آپ خود تتلیوں کے آنے پر ایک دو تین کہنے لگیں گے- یہ ایک ضرور پڑھنی جانے والی بہترین تحریر ہے-

Leave a Reply

Please rate

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top